21 جولائی 2012 - 19:30

سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کونسا بڑا ہدف ہے جس نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب، قطر، اسرائیل اور القاعدہ وغیرہ کو یکسو کر دیا ہے۔ شام میں ان قوتوں کے اتحاد کا مقصد کیا ہے؟ کیا واقعاً یہ سب قوتیں عوام دوست اور جمہوریت پسند ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ”ہاں“ وہی کہے گا جو احمقوں کی جنت میں بستا ہے۔ سعودی عرب، قطر اور اردن کی موجودہ خاندانی بادشاہتوں کے سرپرستوں کو جمہوریت کتنی عزیز ہے، کسی سے پوشیدہ نہیں۔

ابنا:  القاعدہ شام میں / القاعدہ جب سے معرض وجود میں آئی ہے ہمارے علم میں اس کا کوئی ایسا کارنامہ نہیں کہ جس کے نتیجے میں حقیقت میں مسلمانوں یا اسلام کو کوئی فائدہ پہنچا ہو۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دو جڑواں مینار زمین بوس کرنا اگر القاعدہ کا کارنامہ ہے تو اس کے جواب میں دو مسلمان ریاستیں زمین بوس کرنا امریکہ کا کارنامہ ہے۔ دنیا بھر میں القاعدہ کی سرگرمیوں کے نام پر امریکہ نے مسلمانوں پر چڑھائی کی ہے اور ایک کے بعد دوسرے مسلمان ملک کو غارت کیا ہے۔ القاعدہ نے آج تک کوئی کارروائی اسرائیل کے خلاف نہیں کی اور اب القاعدہ شام میں جمہوریت کی بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ سابق روسی سفارتکار ویچسلاو موٹوزف نے حال ہی میں شام کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ القاعدہ کو امریکی سی آئی اے نے ایجاد کیا ہے اور بن لادن کو امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف جنگ کے لیے افغانستان بھجوایا تھا۔ موٹوزف نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ترکی میں شام کے مسلح افراد کی تربیت پر عبدالحلیم بلحاج لیبیائی کا نگران کے طور پر موجود ہونا، سی آئی اے اور القاعدہ کے مابین مشکوک روابط کی ایک اور دلیل ہے۔ عراق کی تنظیم حزب ناصری کے جنرل سیکرٹری حسین الرلبیعی نے گذشتہ دنوں بغداد میں فارس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ القاعدہ کے وائٹ ہاﺅس کے ساتھ مشترکہ مفادات کے پیش نظر خطے میں دونوں مل کر اس انداز سے کام کرتے ہیں کہ القاعدہ کے کاموں کو بہانہ بنا کر امریکہ علاقے کے ممالک میں مداخلت کرتا ہے، تاکہ ان ممالک کو اپنے زیر تسلط لے آئے اور علاقے میں افراتفری پیدا کرکے ان ممالک کے ٹکڑے کئے جاسکیں، تاکہ نئے مشرق وسطی کی تخلیق کے منصوبے پر عمل درآمد ہو سکے۔ ربیعی نے مزید کہا کہ عراق اور شام میں القاعدہ کی بیشتر دہشتگردانہ کارروائیاں ثابت کرتی ہیں کہ اسے امریکہ اور علاقے کے ممالک کی لاجسٹک اور مالی امداد حاصل ہے۔ اسی امداد کے ذریعے القاعدہ لبنان اور علاقے کے دیگر ممالک میں دہشتگردی کو منتقل کرتی رہتی ہے۔ حسین الرلبیعی جو علاقے کے سیاسی امور کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں، کا کہنا تھا کہ امریکہ اور القاعدہ کے مابین جس جنگ کا ذکر کیا جاتا ہے وہ دراصل ایسا پردہ ہے جس کے پیچھے دونوں کے مابین محکم اتحاد قائم ہے اور اس کا مقصد امریکی تسلط کو سہولت مہیا کرنا اور صہیونی حکومت کو مدد فراہم کرنا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ شام میں موجودہ حوادث کے آغاز میں اپریل کے مہینے میں سعودی ولی عہد نائف بن عبدالعزیز نے سعودی جیلوں کا دورہ کیا اور القاعدہ کے گرفتار افراد کو شام میں کردار ادا کرنے کی شرط پر رہا کر دیا۔ الظواہری نے گزشتہ جون میں اپنے بیان میں شام کی موجودہ حکومت کے خاتمے کی حمایت کی تھی، علاوہ ازیں مختلف ذرائع کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان، عراق اور یمن سے القاعدہ کے سینکڑوں اراکین کو شام روانہ کیا گیا ہے۔

شام کے سیاسی امور کے ماہر اور تجزیہ کار ریاض الاخرس نے بھی القاعدہ اور امریکہ کے مابین شامی حکومت کے خاتمے کے لیے ہم آہنگی کا پردہ چاک کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں کا اتحاد دراصل وائٹ ہاﺅس کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے ہے۔ انھوں نے کہا کہ نہ فقط شام کے ہمسایہ ممالک سے القاعدہ کے ارکان کو رہا کرکے شامی سرحدوں کے قریب بھجوایا گیا ہے، بلکہ برطانیہ سمیت بعض مغربی ممالک سے بھی القاعدہ کے اراکین کو آزاد کرکے اردن وغیرہ بھجوایا گیا ہے، تاکہ انھیں حسب ضرورت شام روانہ کیا جائے اور وہ شام میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں جیسی کارروائیاں کرسکیں۔ عراقی وزیر خارجہ ہوشیار زیباری نے بھی شام میں القاعدہ کی سرگرمیوں کو آشکار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے پاس القاعدہ کے جنگجوﺅں کے عراق سے سرحد عبور کرکے شام کے علاقے میں جانے سے متعلق ٹھوس اطلاعات موجود ہیں، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق عراقی وزیر خارجہ نے یہ بات ایک پریس کانفرنس میں کہی۔ انھوں نے اس موقع پر مزید کہا کہ القاعدہ کے حربی کارروائیوں کے نگران سمگلنگ کے قدیم راستوں کے ذریعے اسلحہ سمیت شام کی جانب جا رہے ہیں۔

القاعدہ کے جنگجوﺅں کے وہاں جانے کا مقصد دہشتگردی کے حملوں میں مدد بہم پہنچانا ہے۔ ہشیار زیباری کا کہنا تھا کہ عراق کی شام کے ساتھ واقع 686 کلو میٹر طویل سرحد پر سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ القاعدہ کے عناصر، بیشتر خودکش بمبار، غیر ملکی جنگجو خفیہ راستے استعمال کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان نقل وحرکت کر رہے ہیں۔ شام میں القاعدہ کی سرگرمیوں کے بارے میں یہ چند ایک رپورٹوں کا خلاصہ ہے، جو ہم نے قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے، ورنہ اس سلسلے میں اور بھی بہت سی رپورٹیں موجود ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام میں جاری دہشت گردی میں القاعدہ کے تربیت یافتہ کیڈر کا ایک بڑا اور نمایاں حصہ ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کونسا بڑا ہدف ہے جس نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب، قطر، اسرائیل اور القاعدہ وغیرہ کو یکسو کر دیا ہے۔ شام میں ان قوتوں کے اتحاد کا مقصد کیا ہے؟ کیا واقعاً یہ سب قوتیں عوام دوست اور جمہوریت پسند ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ”ہاں“ وہی کہے گا جو احمقوں کی جنت میں بستا ہے۔ سعودی عرب، قطر اور اردن کی موجودہ خاندانی بادشاہتوں کے سرپرستوں کو جمہوریت کتنی عزیز ہے، کسی سے پوشیدہ نہیں۔ القاعدہ کی ہر کارروائی آج تک امریکہ اور اس کے دوستوں کے مفاد میں تمام ہوئی اور اس کی ہر ضرب کا زخم ہمیشہ مسلمانوں کے بدن پر لگا ہے۔ آج اسرائیل، امریکہ اور القاعدہ شام میں پھر ایک ہوگئے ہیں تو اس کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے شام کی موجودہ حکومت کا طویل عرصے سے اسرائیل کے خلاف جرات مندانہ موقف۔ او آئی سی اور شام کے حالات شام کے معاملے میں ترکی، اقوام متحدہ اور عرب لیگ کا کردار بھی خاصا اہم ہے۔ اس کا بھی تفصیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے، البتہ یہ امر واضح ہے کہ او آئی سی عملاً اس مسئلے میں خاموش تماشائی ہے۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ او آئی سی کے کسی مجوزہ اجلاس میں مختلف آرا، سامنے آئیں گے اور امریکی مقاصد کی حمایت میں او آئی سی کے کسی اجلاس میں کوئی قرارداد اتفاق رائے سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔

اتفاق رائے تو عرب لیگ کے اجلاس میں حاصل نہیں کیا جاسکا، تاہم عرب لیگ پر قابض قوتیں اس کا نام ضرور منفی طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ عراق، لبنان وغیرہ پہلے ہی عرب لیگ میں اس کے موجودہ موقف کی مخالفت کرچکے ہیں۔ تاہم شام کے قضیے نے ایک مرتبہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ او آئی سی سے عالم اسلام کو کوئی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔ جب تک مسلمان ممالک میں عوام کی حقیقی منتخب قیادتیں برسراقتدار نہیں آجاتیں او آئی سی سے کسی بڑے مفید اور موثر کردار کی امید عبث ہے۔

.......

/169